کس سوچ میں ڈوبے ہو
کس فکر میں الجھے ہو
کس غم نے ستایا ہے
کس شے نے رلایا ہے
-
Hum ne to bas Ishq kiya tha
Na jaane ye gam kahan se mile..!
ہم نے تو بس عشق کیا تھا
نہ جانے یہ غم کہاں سے ملے..!
-
فرصت میں کبھی آ کے میرے پاس تو بیٹھو
تم کو سناؤں داستان غم تمام رات.-
गम के लहरों ने मुकद्दर को डुबोया पल पल
जिस्त हैरान है साहिल पे भला आऊँ कैसे
غم کی لہروں نے مقدر کو ڈبویا پل پل
زیست حیران ہے ساحل پہ بھلا آوں کیسے-
ये केसा तूफ़ान उठा है ग़मों का
जो थमने का नाम ही न लेता है
आँसू तो अर्सा हुआ पीछे रह गए
ये तो लहू है जो अब आंखों से बहता है
یہ کیسا طوفان اٹھا ہے غموں کا
جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا ہے
آنسو تو عرصہ ہوا پیچھے رہ گئے
یہ تو لہو ہے جو اب آنکھوں سے بہتا ہے-
-ٰkashmir
غم اور خوشی میں فرق نہ ہو جہاں
آصفی ہم اُس مقام کو کشمیر کہتے ہیں۔
-قیصر اصفی-
غمِ زندگی تو چاہتا کیا ہے
دور جاتے نہیں ماجرا کیا ہے
ساتھ چلتے ہو ہمنوا بن کر
تیرا مجھ سے واسطہ کیا ہے
چھوڑ دے ساتھ چلنا میرے
پاس میرے اب بچا کیا ہے
ڈرے خوشیاں پاس آنے سے
نہیں معلوم معاملہ کیا ہے
تونے مجھ پہ کئے ہیں ظلم بہت
بتا مجھے میری خطا کیا ہے
چاہتا ہوں کہ اب رہائ ملے
اور میری التجا کیا ہے
ہوں غم سے میں نڈھال بہت
جانے تقدیر میں لکھا کیا ہے
(وسیم اکرم سہاروی )-
رنج و غم چہرے سے بیاں ہونے لگا ہے
یہ ہجر اب لوگوں پہ عیاں ہونے لگا ہے-
جی لگتا ہے اب تو بس اپنے ہی دیار میں
حسرتیں باقی ہی نہ رہیں دلِ داغدار میں
روٹھ کے اڑی جو ایک بلبل شاخِ محبت سے
کوئی رونق ہی نہ رہی پھر گلشنِ گلزار میں
دامنِ خزاں میں ہی صبح کو شام کیا ورنہ
ایک عرصہ گزارا ہے بہاروں کے حصار میں
آنکھوں میں فقط سحراؤں کی ریت بھری ہے
خواہشیں سب حوا ہوئیں غموں کے غبار میں
دیکھ کے ھمیں اندیکھا کرتے رہے مسلسل
"ناز" ایک کہانی تمام ہوئی بھرے بازار میں-
چاہتا ہوں کہ غم چھپا کے چلوں
دل کی باتوں کو میں دبا کے چلوں
یہیں رہ جائنگے جب مال و متاع
کیوں نہ جاتے ہوئے لٹا کے چلوں
ہاتھ ملنا پڑے نہ محشر میں
روٹھے مولا کو میں منا کے چلوں
ماں کے قدموں میں میری جنت ہے
انہیں قدموں کو میں دبا کے چلوں
گھیر لیتی ہے اکرم کو بارہا گردش
سفر میں جب بھی بن دعا کے چلوں-