لیکن پھوٹا نور جب اسلام کا،
چمک اٹھا ہر کونا در و بام کا
وہ عورت جو بے مول تھی بہت
اب جاکر انمول ہوئی بہت
ایک تاج عزّت کا اٹھایا گیا
سر پہ اسکے سجایا گیا
حیا کی چادر میں اسے چھپاکر
گند و غلاظت سے بچایا گیا
زور و جبر کا منہ کچل کر
اسکی رضا کو حرفِ آخر بتایا گیا
پرورش کا اسکی فریضہ نبھاکر
اسکے پدر کو جنت کا
مستحق ٹھہرایا گیا
اپنے ساتھی کا آدھا دین بنی وہ
گھروں کی زینت
گو مہزبین بنی وہ
غرض کہ ہر طرح سے معتبر رہی وہ
عزّت سے رہی جدھر بھی رہی وہ
عزّت سے رہی جدھر بھی رہی وہ
عریفہ ناز
***********************************-
Angaare dehek kar goya aatishfishan hue jate... read more
***********************************
کہ مقام پر عورت کے
میں آخر کیا لکھوں
رحمت لکھوں ، راحت لکھوں
شفقت لکھوں کہ جنت لکھوں
چودہ صدیوں سے وہ جو ہے
پہلے کبھی نہ تھی
ایک بوجھ تھی ، ایک چوٹ تھی
نسلِ آدم کے تکبر کا
جیتا جاگتا ثبوت تھی
خریدار تھے اسکے، بازاروں میں بکتی تھی وہ
کس قدر دورِ جہالت میں
تڑپتی تھی، سسکتی تھی وہ
ضرورت بھی تھی، غیرت بھی تھی
اور شاید حسرت بھی تھی
لیکن عزّت
عزّت کبھی نہ تھی وہ!
-
*** تو ہی خدا ہے***
قبضہ قدرت میں دونوں جہاں
تابع ہیں تیرے ارض و سماں
یہ لیل و نہار و شمس و قمر
یہ کوہ و دمن و حجر و شجر
یہ مونگے یہ موتی یہ لعل و گہر
یہ جنوں کی خلقت یہ قلب بشر
بتا رہے ہیں تو ہی خدا ہے!
یہ تیری قدرت کے سارے مظہر!
میری ذات ادھوری کامل ہے تو
میں جو ڈوبوں میرا ساحل ہے تو
بھٹکوں کبھی تو میرا راحل ہے تو
تمام حسرتوں کا حاصل ہے تو!
کروں میں آخر تو کیسے بیاں
لکھوں تو آخر لکھوں کہاں
یہ جلوے تیری تجلّی کے یارب
بکھرے ہیں ہر سوں ہر سمت یہاں
رُتِ بہار تو کبھی رُتِ خزاں
برفباری کہیں، کہیں آتشفشاں
بتا رہے ہیں تو ہی خدا ہے!
پھیلے یہ سبزے پھیلے بیاباں!
گل ہیں کھلتے گلستانوں میں
آتش جو دہکے آتشدانوں میں
گھومتے سیّارے آسمانوں میں
بتا رہے ہیں تو ہی خدا ہے!
تو ہی خدا ہے! تو ہی خدا ہے!
کوئی نہ تیرے سوا خدا ہے!
-
ایک غزل! ایک دکھ! ایک سانــحہ! ایک امید!
ایک روح جو ہوا ہوئی!
ایک جان جو فنا ہوئی!
جو چلا گیا اسے کیا خبر
عمر ساری ایک سزا ہوئی!
ہجر جو درمیان آ ٹھہرا
بڑی بوجھل سی فضا ہوئی!
یہ تنہائیاں کہ وہشتیں تھیں
بس انھیں سے اب شفاء ہوئی!
تیرے کرب میں اے صالحہ!
میں کیا تھی! میں کیا ہوئی!
یہ حادثہ بھی قبول مجھکو
میرے رب کی اسمے رضا ہوئی!
بہشت میں ہم تم پہر ملیں
لبوں پہ ہر دم سدا ہوئی!-
لمحہ کتنا ہی بھاری ہو آخر گزر ہی جاتا ہے
آفتاب چڑھے بلندی پر بعدِ عصر اتر ہی اتا ہے
ہم کرب کے زندانوں میں قید نادار سے لوگ
کوئی ذرا جو حال پوچھے دل بھر ہی اتا ہے
یہ راہِ نمرود ہے کہ گلوں سی سجی رہتی ہے
ابراہیم کی راہوں میں ہر سوں کنکر ہی اتا ہے
روح پہ بوجھل تو بہت ہے یہ گردش ایام کی
پر ایوانِ دل میں دور کہیں صبر اتر ہی اتا ہے
نکل بھاگ جس سمت بھی فریب و گنہگاری میں
کہ سفر کے ہر اختتام پر میدانِ محشر ہی اتا ہے
-
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
رودادِ زندگانی کو ایک کمال دینا شروع کر
بکھری سوچوں کو ایک خیال دینا شروع کر
جو تھام نہ سکے تجھے تیری بدحالیوں میں
ان جھوٹے رشتوں کو اب زوال دینا شروع کر
ڈر خوف کے سائے جو پاؤں میں لپٹ رہے ہیں
ان تمام وبالوں کو ایک وبال دینا شروع کر
تھام لے انھیں ، ان جســـارتوں پر فنا ہو جا
زمانے کو عجب سی ایک مثال دینا شروع کر
تری شہرت کے چرچے جن دلوں کو جا لگیں
ان سب کلیجوں کو ایک ملال دینا شروع کر
کس قدر اونچا ہے درجہ تیرا، کر تلاش کبھی
اس معیارِ خودی کو درجہ کمال دینا شروع کر
یہ لمحوں کا کھیل نہیں ایک مدت دراز چاہیے
اس عزم کو "ناز" ماہ و سال دینا شروع کر...
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
-
اس دل پہ جو قرب گزرتا ہے گزر جائے گا
پیمانہ صبر جو ہے تھوڑا اور بھر جائے گا
ابھی تو لہو ہے جو بہہ رہا ہے رگِ جاں میں
ابھی تو زہر ہے جو سینے میں اتر جائے گا
زندگی نے بھی کیا خوب سبق سکھایا ہے
اج جو ہامی ہے تمھارا ،کل ہی مکر جائے گا
ایک سجدہ خالص محبت کا کر کے دیکھو
بگڑتا ہوا مقدّر لمحوں میں سنور جائے گا
زمانے کے تعاقب میں بھٹکتی دید کیا جانے
اک دھؤاں ہے جو آنکھوں میں بھر جائے گا
یہ جھوٹے فسانے ڈھیروں بہانے آخر کبتک
چاہ رکھنے والا تو ہر حد سے گزر جائے گا
فرعون سی بغاوت کی تو غرق کئے جاؤگے
کہ موسیٰ تو بحرِ احمر سے بھی گزر جائے گا-
***غزل***
بہار رتوں کے موسموں کی ذرا سی ترجمانی کیجئے!
قیام لمحوں کی حسرتوں پر ذرا سی مہربانی کیجئے!
یہ جلوے تیری تجلّی کے کوئی خاکسار پائے کیسے
اس خاکِ فانی کو بھی مولا ذرا سی نورانی کیجئے!
سیاحی کے دامن میں، جب چھپ چکا ہے عالم سارا
حسین خلوتوں میں ہم سے ذرا سی ہمکلامی کیجئے!
بیتے کچھ الم جاناں کھا گئے سب شوخیاں ہماری
قلبِ ناداں کہ کہتا ہی رہا ذرا سی نادانی کیجئے!
یہ سفرِ حیاتِ فانی اپنے اختتام کو پہنچا جاتا ہے
منزلِ آخیر کے لئے بھی "ناز" ذرا سی یاد دہانی کیجئے!-
اب کیا ہی لطف ہمیں دورانِ مسافری کا ہے
جب کاروان ہی یہاں سب کا سب لٹ گیا ہے
یہ نم نگاہیں، سرد آہیں، روح سے لپیٹی بلائیں
گویا ہجر کسی کا متاعِ جاں سے چمٹ گیا ہے
سانس ہے کہ اکھڑتے اکھڑتے پھر سمبھل جائے
یہاں سلسلہِ فنا و بقا درمیان میں اٹک گیا ہے
ایسا بھی کیا باقی رہا تھا جو وہ آ ہی نہ سکے
دشواری تھی جسسے راہ کا ہر کاٹا ہٹ گیا ہے
پہر سے ایک حسرت دل میں سر اٹھائے کیسے
ہائے نظرِ بے شوق کہ "ناز" کلیجہ ہی کٹ گیا ہے
-