तनहाई में करनी तो है एक बात किसी से
लेकिन वह किसी वक्त अकेला नहीं होता,,-
میری تنہائی میں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے تمہیں
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
-
جس نے تنہائی کی بانہوں میں گزاری ہو حیات
تو اسے چھوڑ کے جانے سے ڈراتا کیا ہے
میری جیبوں میں محبت کے ہیں سکے لیکن
آج کے دور میں ان سکوں سے آتا کیا ہے-
مزاج کچھ ایسا ہو چلا ہے کہ چاہیئے تنہائی میں بھی یکسوئی مجھے،
دل کہتاہے اب کوئی چاہنے والا بھی نہیں چاہیے مجھے
Mizaaj kuch aesa ho chala he ke chahiye tanhai me bhi yaksui mujhe,
Dil kehta he ab koi chahne wala bhi nahi chahiye-
دور ہو کر بھی پاس لگتے ہو
روح کا حسین احساس لگتے ہو
ہم دور ہو کر بھی تمہیں کیوں نہ یاد کریں
تم یہاں ہر سو آس پاس لگتے ہوں
-
بہت غمگین ہے اندر کا موسم
یہ بارش آنسووں کی چاہتا ہے
عجب سا شور تنہائ میں اسکی
خموشی محفلوں کی چاہتا ہے
قدم رکھنے سے پہلے شہر غم میں
نصیحت دل جلوں کی چاہتا ہے
ترے سینے پہ رکھ کر ہاتھ رہبر
رفاقت دھڑکنوں کی چاہتا ہے
یہ صحرا کب تلک تنہا رہیگا
کہ ہلچل قافلوں کی چاہتا ہے
جسے نفرت ملی ہو دوستوں سے
محبت دشمنوں کی چاہتا ہے
شمع۔ف-
جب آدمی اندر سے صحرا میں بھٹک رہاہو، تو شہروں کا ہجوم بھی اس کی تنہائ دور نہیں کر سکتا
जब आदमी अंदर से सैहरा (रेगिस्तान) में भटक रहा हो तो शहरों का हुजूम (भीड़) भी उसकी तन्हाई दूर नहीं कर सकता-
'ضبط' کرتا ھوں تو ہر زخم 'لہو' دیتا ہے
'آہ' کرتا ہوں تو اندیشہ 'رسوائی' ہے
'دیکھتا' ہوں تو 'ہزاروں' میرے اپنے ہیں مگر
'سوچتا' ہوں تو وہی 'عالمِ تنہائی' ہے
ज़ब्त करता हूं तो हर जख्म लहू देता है
आह करता हूं तो अंदेशा ए रुसवाई है
देखता हूं तो हजारों मेरे अपने हैं मगर
सोचता हूं तो वही आलमे में तन्हाई है
-