Sohail Ahmed Soomro   (Ahmed Sahil)
100 Followers · 60 Following

read more
Joined 8 October 2017


read more
Joined 8 October 2017
23 JUL 2023 AT 19:41


"From The Pages Of My Diary"

I am searching for the remnants of my own existence. I'm here yet I'm not. I am what I'm not. Deserted, left alone maybe forgotten too. I don't see what my eyes show me, I don't listen to what my ears hear. This feeling, this mystery, is more like chaos, being channeled through and through, evolving and diminishing altogether. And I remain tormented for ever...

-


15 JUL 2023 AT 1:33

بے نام کردیا ہے فلاح فلاح کہتے کہتے
بُرا بن گیا خود کو اچھا کہتے کہتے
معصومیت کی خوشبؤں سے تر مرا وجود
کُچل دیا گیا میں بے ایماں کہتے کہتے
عقل و شعور کی راہوں پر ستمگری دیکھیے
دُھتکارا جا رہا ہے طالب بدگماں کہتے کہتے
کوششیں ہی زیرِ قوّت کوششوں پر ہی تانے
کُچھ کرنے بھی نہ دیا ناکارہ کہتے کہتے
کہیں آزاد ہوگیا تو کامیاب ہوجائیگا
کاٹ رہے پنکھ مجھے پروانہ کہتے کہتے
کس جرم کی سزا ملی اب تلک سوچتا ہوں
منصف بھی ٹال گیا کوئی بہانہ کہتے کہتے
مدد کو نہ آیا کوئی میں دیتا رہا صدائیں
ہر شخص سامنے سے گزرا ابھی آیا کہتے کہتے
گریبان سب کے داغدار تھے جو بھی ہم نے دیکھے
اوروں پر تھی اُنگلیاں کیا سے کیا کہتے کہتے
اُسکی کوئی شخصیت کیا ہی ہوگی جہاں میں
جیا جو سبھی کی ہاں میں ہاں کہتے کہتے
خُدا کی پناہ کیسے لوگوں کی ہے یہ دنیا
حیوان بس رہے ہیں خود کو انساں کہتے کہتے

-


14 JUL 2023 AT 12:15

کاغذ کے پُتلے اندر سے خالی
چہروں پر لالی مگر سب جعلی

Kagaz ke putle andar se khaali
Chehro'n par laali magar sab jaali

-


13 JUL 2023 AT 1:56

ٹوٹے جو پاش پاش اگر دل، کیا کیجے
اٹھائیے ٹکڑے زمین سے اور دعا کیجے

پھر واپس نہ آئیے دوبارہ وہاں لوٹ کے
جہاں اپنی ذات اِک بار بھی مرا کیجے

دل شکست کھائے بیٹھا عِشق و مُحبّت سے
پھر پیار کی تمنّا ہے؟ اجّی دفاع کیجے

انّا کا نہ سہی ضمیر کا کیجے خیال
بھیک میں جو عزت بھی ملے منع کیجے

ہر کسی سے کر کے، کیا پا لیئے آخر؟
اب کی بار کیجے تو خود سے وفا کیجے

تنہائی کہاں! تنہا رہ جانا ہے ظُلم
دونوں الگ مراحل ہیں فرق رکھا کیجے

مانا کہ درد ایندھن ہے قلم کا ساحل
مگر درد بھی لیجے جتنا سہہ سکا کیجے۔۔۔

-


12 JUL 2023 AT 13:30

دے خبر! زندگی کے مشابہ زندگی ملی ہے؟
زندگی کو جان کر بھی کسے زندگی ملی ہے؟

ہزاروں مثالیں مِلتی ہے کروڑوں لوگوں سے
کسی ایک پوچھیے، حقیقتِ زندگی ملی ہے؟

جو خوش ہیں زندگی کی رعنائیوں میں
کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہیں زندگی ملی ہے!

مجھے دِکھتے ہیں مُردے ہنستی آنکھوں میں
زندہ ہیں؟ مگر دیکھیے یہ زندگی ملی ہے!

مر ہی تو رہے ہیں راہِ محبّت میں یک بیک
کس منہ سے کہتے ہیں کہ زندگی ملی ہے

پہیلی ہے؟ جال ہے؟ غار ہے؟ کہ فقط زوال
اہلِ علم بتائیں کس واسطے زندگی ملی ہے

تُم بڑھی باتیں کرتے ہو سرِ محفل ساحل
صاحبِ زندگی ہو؟ بتاؤ راہِ زندگی ملی ہے؟

-


7 JUL 2023 AT 5:04

میں آخر انسان ہی، کمزور و بےحال
کتنوں سے لڑتا، کتنے ماہ و سال
ہار گیا میں، کوئی جیت سکا ہے؟
کون ہے جو مسلسل لڑھا ہے؟
زمانہ جو کر سکتا تھا کرتا گیا
جو جو مخالف تھا بس مرتا گیا
ظلم کی آگ میں ظالم اک میں بھی
شاید ضمیر کی ملامت یہ بھی
کر سکنے کو اور بھی تھے وسائل شاید
فقط میں نہ سمجھا وہ مراحل شاید
اور تُو پوچھے ہے، کیا میری بندگی؟
ساحل کو شرمندہ مت کر اے زندگی . . .

-


1 JUL 2023 AT 21:48

اِک شه جو کسی سے لگائی نہیں گئی
آگ دل کی ہم سے بُجھائی نہیں گئی
جس اُمید پر تھی شرط بچ جانے کی
اِک وہی اُمید کبھی جگائی نہیں گئی

Ik sheh jo kisi se lagayi nahi'n gayi
Aag dil ki humse bhujhayi nahi'n gayi
Jis umeed par thi shart bach jane ki
Ik wohi umeed kabhi jagayi nahi'n gayi

-


19 MAR 2023 AT 3:27

ٹوٹیں ہم ہجر میں کیسی مجال کہ
ٹوٹنے دیتے نہیں گماں وصال کے
امتحان لیتی رہی مُجھسے زندگی میری
منتظر ہم ٹھہرے بعد الزوال کے
دعائیں مانگ رہی تھی لبوں کی خاموشی
وہ سمجھے لاجواب ہم اُسکے سوال کے
صبر کے سلسلے بھی منفرد رہے ساحل
کہیں عمر بھر جاری، کہیں چند سال کے

-


14 JAN 2023 AT 19:43

کہیں دل اب میرا لگتا ہی نہیں
ایک جگہ اسلئے ٹھہرتا نہیں ہوں
تُم میرے زوال کا ہو سبب و وسیلہ
تمہیں کُچھ مگر کہہ سکتا نہیں ہوں
ایک ہی ہنر تو نہ تھا مُجھ میں ساحل
شاعری کے سوا کچھ کرتا نہیں ہوں

-


2 JUL 2022 AT 13:39

کمی ہے لفظوں کی، میں اثر مانگتا رہا
راتوں میں جاگ جاگ کر سہر مانگتا رہا

زمانہ دیتا چلا گیا میں لیتا چلا گیا
اور پھر کیا ہی میں حَشَر مانگتا رہا

دامن میں سب آیا مگر دامن چاک میں
سب چھوڑ چھاڑ کر رفُّوں اسٹچر مانگتا رہا

اِک دانائی سے محروم تھا میں سمجھدار
جاہلوں سے نُسخہءِ گُزر سَفر مانگتا رہا

ساحل کو ڈُوبانا تھا بہرِ ساحل نے ہی
میں بے وجہ ہی غیروں سے قہر مانگتا رہا

اُسکے ہاتھوں زہر کے پیالے پیتے پیتے میں
پھر اُسی سے وسیلہءِ نجاتِ زہر مانگتا رہا

شکلِ بدبخت آئے آئینہ مت دکھایا کر مُجھے
یہ وہ بدنصیب ہے جس کی قدر مانگتا رہا

کس سے ہوگی شکایات جبکہ مجرم میں ہوں
نورِ ازل سامنے تھی، میں تاریکیِ بَشر مانگتا رہا

دینے والی ذات پاک تو منتظر ہی رہی
بدبخت ہے ساحل جو اِدھر اُدھر مانگتا رہا

-


Fetching Sohail Ahmed Soomro Quotes