......— % &
-
تیرے اک دید کو ہم نہ ترسے یہ کون کہتا ہے
رات کی اندھیریوں میں ہم نہ روئے یہ کون کہتا ہے
خیال بس تیرا تھا جا کے اُن فرشتوں سے پوچھ لو
چمکتی چاندنی میں ہم نہ تڑپے اب یہ کون کہتا ہے
-
مجھے طلبِ شُہرت نہیں،
پر یہ کام سر عام نہ کر
مجھے سہنے کی جرأت نہیں
تو اور بدنام نہ کر-
وہ یار بھی عجیب تھا جس کے خاطر رُک گیا
وہ شخص تو قریب تھا بس میں ذرا سا تھک گیا
موسم بھی خوشنصیب تھا بارش کا انتظار کر گیا
منتظر جس چیز کا تھا پھر اُسی کو اُلٹا کے پی گیا
پی کے میں غرقاب تھا کہ ہوش بھی میں کھو گیا
وہ شی اسقدر نایاب تھی جو غم تھا وہی بھول گیا-
ہم تو کُچھ دن ہی غائب رہے اور کسی کو یاد بھی نہ آئی
چھپ چھپ کر دیکھتے رہے پر کسی کی صدا تک نہ آئی
-
اب تم یہ ادائے، ناز و نخرے کسی اور دکھانا جناب
حسین آنکھوں کا جال تم اب کسی اور پر پھینکنا جناب
فرش پہ ماتم کرو یا عرش والے سے تم رو رو کے فریاد کرو
خواب میں بھی نہ ملے گے تم کو، حقیقت کی بات ہی نہ کرو
Ab tum ye adaye, Naaz o nakhrey kisi aur ko dikhana jinaab
Haseen aankho ka jaal kisi aur par pheynkna jinaab
Farsh pey maatam kro yaa arsh waaley say roo roo k fariyad kro
Hm khawab mey b na miley gey tum ko hakekat k baat he na kro-