نہ جانے کیسے پرکھتا ہے مجھے میرا خُدا
امتحاں بھی سخت لیتا ہے اور ہارنےبھی نہیں دیتا-
کلمہ پڑھ کافر مسلمان ہوندے
مسلمان دلاں وچو کفر کڈھدے ای نئی
کتا پے جاواے ۔۔۔۔؟
اگوں بہہ جایئے
فیر کتے اس بندے نوں وڈھدے نئی
اے کتیاں دی عادت اے قصور مندا
بندے بیٹھے نوں تے بندے چھڈدے ای نئی-
خون بہتے ہوئے جب ماں کو پکارا ہوگا
کس قدر کرب و اذیت کا نظارا ہوگا
دیکھ کر پھول کی لاش ماں نے
کیسے صبر کا خار اپنے دل میں اتارا ہوگا-
ایتھے چن منور صورتاں
دیندے قبری پا
ایتھے رنڈیاں ہون سہاگناں
ہلے منوں نئی لتھا چا
ایتھے گانیں بنن والیاں
مارن رو رو ٹا
-
کوئی بن گیا رونق آکھیاں دی
کوئی چھوڑ کے شیش محل چلیا
کوئی پلیا ناز تے نخریا وچ
کوئی ریت گرم دے تھل چلیا
کوئی پل گیا مقصد آون دا
کوئی کر کے مقصد حل چلیا
چھد حمزہ گلاں کی کریئے
ایتھے سارا جگ مسافر اے
کوئی آج چلیا
کوئی کل چلیا-
یہ جو دیوار کا سوراخ ہے
سازش کا حصہ ہے
مگر ہم اس کو اپنے گھر کا
روشندان کہتے ہیں ۔۔۔،
میرے اندر سے ایک ایک کر کے
سب کچھ ہوگیا رخصت۔۔۔،
مگر ایک چیز باقی ہے
جسے ایمان کہتے ہیں ۔۔۔؛
-
بڑا صبر کیتا ہون ویکھ ربا
تیرے بندے ای بن گئے خدا میرے
اس غربت نے وی ویکھ لے آج
دیتے رشتے دار چھڑا میرے
منہ وٹ کے لنگ جاندے نے
یار بیلی پین پرا میرے
اے وی چنگا میرے تے کرم کیتا
اینا ساریاں چہ دتے وکھا میرے-
اداس رہنے کو اچھا نہیں بتاتا ہے
کوئی بھی ذہر کو میٹھا نہیں بتاتا ہے
کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں
یہ آئینہ ہمیں بوڑھا نہیں بتاتا ہے
اے اندھیرے دیکھ لے تیرا منہ کالا ہوگیا
ماں نے آنکھیں کھولیں گھر میں اجالا ہوگیا
اس طرح میرے گناہوں کو دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہو تو رو دیتی ہے
بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشان چھوا
اٹھایا ماں نے گھود میں تب آسماں چھوا
کسی کو گھر ملا حصے میں کسی کو دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی
یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے-
ابھی ہلکا سا جھنجھوڑا رب نے
پوری دنیا کو ہلا چھوڑا رب نے
انسان جو اپنے علم و ہنر پے اتراتے تھے
بہت کر لی ہے ترقی ہم نے فرماتے تھے
گھروں میں محصور ہوئے بیٹھے ہیں
لا چاروں مجبور ہوئے بیٹھے ہیں
انساں کو اپنی حدود میں رہنا پڑے گا
اللہ اکبر اللہ اکبر کہنا پڑے گا
توبہ و استغفار کریں اب
دعا ہی ہے حل اسکا بار بار کریں اب-