درد کی تصویر
میں تو بکھرا ہوں، کوئی تصویر نہیں میری
میرا کوئی رنگ نہیں، مجھے ویرانوں میں ڈھونڈ
درد بے سکون ہوں، غم کا پہاڑ ہوں
اندھیروں سے دوستی میری، اجالوں میں مت ڈھونڈ
درد بری محفل ہوں، خوشی کا عکس نہیں مجھ میں
غم کا سایہ ہوں، خوشیوں میں مت کر شمار مجھے
درد جدائی ہوں، رابطوں کا واسطہ نہ رکھ مجھ سے
افسردہ دل ہوں، قربت سے نہ جوڑ مجھے
کوئی خبر نہیں میری، نہ پہچان ہے کوئی میری
زندہ لاش ہوں، مردوں میں مت کر شمار مجھے-
عجیب قصہ دیکھا تیرے شہر کا
کوی کسی کی آس میں جیتا رہا
کسی کو اپنوں نے اجاڈا
کوی امیدوں کا پہاڈ لےکے ٹوٹ پڑا
کوی مرتا رہا کسی کی یاد میں
کوی کسی غیر کی یاد میں روپڑا
عجیب داستاں تھی تیرے شہر کی
میں دربدر پھرتا رہا تیرے گھر کی تلاش میں
تم نے تو گھر ہی بدل دیا
میں تو تیرے شہر میں مسافر کی طرح پھرتا رہا
لوگ اتے گیے اور مزاخ بنتا گیا-
نہ جانے کیوں تیری خاموشی مجھے جینے نہیں دیتی
میں چین سے سوجاؤں تو خوابوں میں ڈرا دیتی ہیں
تیرے بغیر تو رہ کر اک عرصہ گزر گیا
نہ جانے پھر تیری کہی باتیں اتنا ظلم کیوں کرا دیتی ہیں
اب تو چُور ہوگیا ہوں کسی طرح سمیٹا گیا ہوں
نہ جانے پھر کیوں یہ تیری یادیں مجھ سے گناہ کرا دیتی ہیں
یہ وہم و گماں یہ ادھوری امید
نہ جانے کیوں تیری خاموشی مجھے مار دیتی ہیں
-
پھر اس کے بعد ہم ایسے خاموش ہوے
کہ ان کا تذکرہ ہورہا تھا اور ہم نے محفل ہی چھوڈدی
-
تم مل گے تو لگتا ہو اندھیرے کو مل گی روشنی
تیرے انے کے بعد ہم سب کو بھلا بیٹھے
کبی تیرے نام کو لکھ بیٹھے
کبھی تیرے روح سے مل بیٹھے
ایسا لگتا ہو کہی سالوں سے ساتھ تھے ہم
صدیوں کا واسطہ ہو ایسا خو گیے ہے ہم میں تم
تیرا انا ہم پے یوں اثر کر گیا ہے
تیری سانسوں کو اپنی روح سے شامل کرنے لگے ہے ہم
مبشر عجیب اثر ہوا ان کا تم پے
کتنا لکھوں ان کے بارے میں سب لگتا ہیں کم-
میں تو بکھرا ہوں کوی تصویر نہیں میری
میرا کوی رنگ نہیں مجھے ویرانوں میں ڈھونڈ
درد بے سکون ہوں غم کا پہاڈ ہوں
اندھیروں سے دوستی میری اجالوں میں مت ڈھونڈ
درد بری محفل ہوں کوی خوشی کا عکس نہیں مجھ میں
غم کا سایہ ہوں خوشیوں میں مت کر شمار مجھے
درد جدائ ہوں رابطوں کا واسطہ نہ رکھ مجھ سے
افسردہ دل ہوں قربت سے نہ جوڈ مجھے
کوی خبر نہیں میری نہ پہچان ہے کوی میری
زندہ لاش ہوں مردوں میں مت کر شمار مجھے
. . . مبشر. . . . . . . . . . . . . . . . . .-
انداذ ایسا تھاکہ ٹوٹ گیے تھے ہم
خود کو کیا سمجھاتے خود سے ہی روٹھ گیے تھے ہم
ایسے بکھرے کہ پھر اٹھ نہ سکھے
جس کی کوی دوا نہ تھی ایسا زخم بن گیے تھے ہم
زندگی بھی ٹھکرارہی رہی تھی
ایسے خوگیے تھے ہم
کچھ درد ملا کچھ اپنوں کا کرم تھا ہم پر.
ایسے ٹوٹے کہ پھر کبھی جڑ نہ سکھے ہم
عجیب قیفیت ہم پہ طاری ہوگی تھی.
کہ خود کا نام ہی بھول گیے تھے ہم
وہ راتوں کا جاگنا وہ جام پہ جام پینا
ایسا نشہ ہوا کہ خود ہی خود سے
باتیں کررہے تھے ہم
مبشر-
اب تو انکھیں بھی تھک چکی تھی
یاد تو کرتا تھا اسکو پر یادیں مرچکی تھی
وہ غیر کی یاد میں مدہوش تھا
میں اس کی یاد میں حوش خو بیہٹا تھا
عجیب تھی یہ ہمارے غموں کی داستاں
میں خود کو گنواں بیٹھا اس کے لیے
وہ کسی غیر کی راہیں تک رہا تھا
یہ کیسا ظلم کرگیا ہم پر یہ زمانہ
ہم مر بھی گیے تب بھی اس کی
یادوں نے نہ چھوڈا ھم کو ستانا
مبشر-