ناواقف تھی خود سے اب تک
الجھنوں کا بسیرا تھا
بےچینی تھی تردد تھا
بے اعتمادی کا پہرہ تھا
چینخ کر پکارتی تھی
روح کی آواز میرے کانوں کو
اب بس ہوا تشدد کا سلسلہ
ایک پھانسی سی چبھی دل میں
خود سے ملاقات کا سفر شروع ہوا
خود اثبات کا ہاتھ تھام کر بہت دور جانا ہے
اپنی دنیا اور آخرت کو خوبصورت بنانا ہے
-
خود پرستی نامناسب تو نہیں
نہ خود سے محبت کوئی گناہ ہے
خود غرض نہ کہیں گا ہمیں
ہم اپنے نفس کے ہمنواں ہے-
آنکھوں سے بہتے جو پانی کے قطرے
چینخ چینخ کر پکارتیں ہیں'
گزر جاتا ہے وقت مگر
یوں ہی فنا ہو جاتیں ہیں-
گھٹاؤں سہ منظر ہے
دل بیچین کو میرے
گزر جانے جو
بادلوں کہ یہ جھنڈ
قرار حاصل ہو جائے
-
Lambi muddato bad aj phir janaza utha h. ..
Suna hai ek br phir jazbat qatal hua-
کسی کے عیبوں کو
بھرے بازار یوں رسوہ نہ کر
یوں بیچ کر عزت کسی کی
تو زلت خرید چلہ-
عمل سے نہ خدمات سے
رشتے نبھاے جاتیں ہیں فقط
خاموشیوں کے اختیار سے-
کہ میرا یہ صبر یہ گل کھلائے گا
میں خاموش رہوں گی اور تو جھٹپٹاے گا-
ضد کہ واسطہ ابلیسی بن چلہ
وہ فرشتہ سہ میرا محبوب
وہ جو جھکہ کرتہ تھہ
محبت کے سجدوں میں کبھی
اب نہ جانے کیوں منکر ہو چلا
-
اکیلے آے تھے
اکیلے جانہ ہے
پھر کیوں امیدوں کو سجانہ ہے
حا مانہ کہ قبرستاں تک کہ سفر ساتھ ہوگہ
مگر پھر بھی مزید تنحہ ہوگہ-