لوگ ملے اور بچھڈ گیے اس دور فانی میں
اک تیرے ہجر میں ویران ہوگئے ہم 🥀
-
جینے کے لیے آسمانوں کی اڑان بھی ضروری ہے
اگر یہ زمین نہ ہوتی تو گر کے ٹھکانہ کون دیتا
دل بہلانے کے لیے پھولوں کی مہک بھی ضروری ہے
ہم کانٹے نہ ہوتے تو پھولوں کی حفاظت کون کرتا
اور کچھ لوگ دوڑ رہے ہیں منزل کی طرف حذیفہ
ہم راہ کے فقیر نہ ہوتے تو تمہاری نگرانی کون کرتا-
ہم نے قلم کو کب کا الوداع کیا ہوتا
پر آپ نے قصہ مختصر ہونے نہیں دیا
اس دنیا کو کب کا خیر باد کیا ہوتا حذیفہ
پر آپ نے مر کے بھی مرنے نہیں دیا-
آج اس موسم میں آپ کی یاد آ رہی ہے
نام آپ کا سن کر آنکھ نم ہو رہی ہے-
اک مدت سے خود کی تلاش میں ہوں
اس عرصے میں اپنا وجود مل نہ سکا
کئ برسوں سے خود کو زندہ رکھا حذیفہ
اس لمحے میں بھی خود کو مٹا نہ سکا-
زخم سب دیکھتے ہیں پر کوئی دیکھتا ہی نہیں
نمک ہر گھر میں ہوتا ہے پر مرہم کہی بھی نہیں
اک شکایت ہے ہم کو بھی اس زمانے سے حذیفہ
زخم جسم کا علاج ہے پر زخم روح کا نہیں-
اے ارض وطن اب کیا چاہیے
اس لہو کے علاوہ کیا چاہیے
پلایا ہے برسوں سے ہم نے
اب کس جوان کا سر چاہیے-
اب میرے قاتل کیا ڈھونڈ رہے ہو
قتل ہو کے مجھے ہی ملزم ٹھرا دو
جنازہ میرا خاموشی کے وقت نکلا تھا
آج تو آپ صرف خون بہا کے آۂے ہو-
اک راہ کیا ملی تم کو، مقصد کو بھول گئے ہو تم
اک منزل کیا ملی تم کو، آشیانے کو بھول گئے ہو تم
معلوم ہے ہم کو اندھیرے میں چلتے ہیں حذیفہ
اک شمع کیا ملا تم کو، روشنی کو بھول گئے ہو تم-