میرے بھروسے نہ رہا کیجئیے کچھ آپ بھی کہا کیجیے بے رخی بہتر نہیں ہے ستم خود بھی سہا کیجیے وصل میں شُکر کیا تھا ہجر میں نہ گلہ کیجیے حسنِ سلوک کِیا کیجیے پھر سبھی کو دعا دیجیے ان کے گریبان پر کچھ نہیں آپ اوقات میں رہا کیجیے مثبت نہیں آتا نظر اگر تو منفی لفظ نہ رہا کیجیے دغا کوئی دینے کی چیز ہے باقی، آپ خوش رہا کیجیے