کر لیا میں نے یقیں دل کی تسلی کے لیے
جبکہ معلوم تھا ٹوٹیگا بھروسا اک دن
توڑ کر صبر، نمی بہہ کے ندی سی نکلی
سخت پتھر کو جو ہلکے سے کریدا اک دن-
जा, तुझे कर दिया आज़ाद तेरे वादों से
शर्म आती है मुझे रोज़ तक़ाज़ा करते।-
تبدیلیاں مجھی میں نہ آیٔ ہیں جان من
تو بھی تو پہلے جیسا تھا ویسا نہیں رہا
तब्दीलियां मुझी में न आई हैं जानेमन
तू भी तो पहले जैसा था वैसा नहीं रहा-
پھر فکرِ رسا آج مری محوِ سفر ہے
اور پیشِ نظر شاہِ مدینہ کا نگر ہے
یہ سیّد کونین کی اُلفت کا اثر ہے
لب پر جو مرے نعتِ نبی شام و سحر ہے
جس در سے کبھی بھی کوئی لوٹا نہیں خالی
وہ آپ کا در آپ کا در آپ کا در ہے
مجھ کو بھی بلا لیجئے سرکار مدینہ
مدت سے مری آپ کے روضے پہ نظر ہے
کیا تجھ سے کوئی راز چھپائے بھی تبسم
کیا ہے دلِ انساں میں تجھے اس کی خبر ہے
-
اب تو لگتا ہی نہیں عشق بچا ہے زندہ
کچھ شکایت نہیں حجت نہیں تکرار نہیں
अब तो लगता ही नहीं इश्क़ बचा है ज़िंदा
कुछ शिकायत नहीं हुज्जत नहीं तकरार नहीं-
ہو کے مایوس دوپٹے کو بنا لوں پھندا
یہ میرے عشق کا معیار نہیں ہو سکتا
हो के मायूस दुपट्टे को बना लूं फंदा
ये मेरे इश्क़ का मेयार नहीं हो सकता।-
میری اُداسیوں کا فقط ہے یہی علاج
جسکی طرف بھی دیکھوں وہ ہنستا ملے مجھے
मेरी उदासियों का फ़क़त है यही इलाज
जिसकी तरफ़ भी देखूं वो हंसता मिले मुझे-
پہلے ندی کا اتنا بھروسا ملے مجھے
جب ڈوبنے لگوں تو کنارا ملے مجھے
لکھوں گی اس پہ بیٹھ کے تشنہ لبی کے گیت
سوکھی ندی پہ ٹوٹا سفینہ ملے مجھے
میری اُداسیوں کا فقط ہے یہی علاج
جسکی طرف بھی دیکھوں وہ ہنستا ملے مجھے
کاسے میں سب کے ڈال دے شب بھر کی چاندنی
اجلی سحر کا ڈوبتا تارا ملے مجھے
بچپن دوبارہ بانہوں میں اپنی سمیٹ لے
ایسا اگر ہو کوئی کھلونا، ملے مجھے
رکھ دوں گی اس کے سر پہ امیدوں کا تاج میں
گر زندگی کی جنگ کا ہارا ملے مجھے
پوری غزل ہی کہہ لی یہی سوچتی ہوئی
کویٔ تو اک خیال کنوارا ملے مجھے
غزالہ تبسم-
लगाओ आंखों से अपनी, हमारे गालों पर
कि रंगे इश्क़ है भारी सभी गुलालों पर।
-
ख्वाब रखती थी बड़े, आंखें थीं छोटी-छोटी
बातें बचपन की कई याद हैं भीगी भीगी
घर पे मर्दों की हुकूमत ही हुआ करती थी
औरतें घर की सभी रहती थीं सहमी सहमी
घर की चौखट को कभी लांघ न पाईं माएं
साड़ियां बक्सों की ज़ीनत बनीं महंगी महंगी
साल दो साल में ही आती थी बेटी पीहर
आँखें धुंधली सी लिए और हंसी फीकी फीकी
लड़कियां सख़्त रसुमात में रहती थीं क़ैद
दायरा तोड़ के बढ़ पाती थी कोई कोई।
ग़ज़ाला तबस्सुम-