ہر ثمر تنِ شجر کی شاخ سے ابھر آتا ہے
کٹ جانے پہ اسکو سینے میں سما جاتا ہے-
سب کچھ شروع اس بات کے احساس سے
سب کچھ ہوا جب۔کچھ نہیں سمجھا گیا
مونس کوئی اس بات سے کیوں کر ہوا
جسم مرتا ہے مگر روح جاوداں، پر ہے کہاں
گر نہیں ہوتا یہ احساسِ فنا انسان میں
تجرباتی تجزیاتی معاملے بےکار تھے-
مطالبہ تو ہے دل چیر کے رکھنے کا
ہر ایک سے مگر جائز بھی نہیں ہوتا
محبت؛ کس درجہ دل میں اترنا پایا
سر کھو کے بھی کچھ ہاتھ نہیں آیا-
میں نے اس دور میں رہ کر یہ تماشا دیکھا
خوش مزاجی پہ زمانے کو نراشا دیکھا
یہ سنا تھا کہ بہت لوگ بچھڑنے پہ نہیں ملنے والے
کوئی بہکا تو کسی شخص نے دیدار خدا کا دیکھا
کوئی شام مجھے تم سے ملانے کو نہیں راضی ہوتی
ہر کوئی بچھڑا گردشِ ایّام نے جس کو شناسا دیکھا-
مصلحتاً ہی صحیح ہم ملے، وعدہ تو وفا کرتے
جدا ہونا تھا تو طریقے سے تم ہم کو جدا کرتے
زخمی ہوں اور کسی طور یہ گھاؤ نہیں بھرتا
سوچتا ہوں تم اگر ہوتے تو شاید کہ دوا کرتے
ہائے نادانیاں میری بھروسہ ہوا بھی تو تم پہ ہوا
ہائے دل تو دل ہے مگر ہم بھی انیس کیا کرتے-
پہاڑوں کی دراڑوں میں سجا مسکن ہزاروں کا
کوئی قطرہ کہیں ٹپکا ہے خالق آبشاروں کا
آنکھوں کا ہے اک مرہم نظارہ سبزہ زاروں کا
کوئی تو ہے سجاتا ہے محافظ ہے بہاروں کا-
جان اب تک بچی ہوئی ہے شاید
یہ بھی ہے کمال ہار جانے کے بعد
شرط یہ ہے دل میں بیٹھنے کی خاطر
دل کسی کا نہ ہو اس کا ہونے کے بعد
تم اس کی منطق کے رہو متلاشی
دل بہلتا تو ہے آنکھیں بھگونے کے بعد-
پردہ سرک رہا ہے وہاں سر سے رفتہ رفتہ
اور گر رہی ہے یہاں حیاء آنکھوں سے آہستہ
نتیجہ یہ کہ ابھر رہی ہے دل کی بیماریاں
نام محبت سے اس درد کو کیا گیا آراستہ
کل تلک جسے بدتر از ہوس کہا جاتا تھا
اب دیوتا بنا کر کیا جاتا ہے انیس سجدہ-
اب تمنا جس چیز کی بھی کروں جل جائے
بس ایک یہی صورت ہے کہ دل بہل جائے
کس کی مجال دل کو سمجھاۓ کوئی بات
ڈوریاں جل بھی جائے کہاں ممکن کہ بل جاۓ
کم از کم میرا ہو کے رہے وہ جہاں بھی رہے
میں یہ کہاں کہتا ہوں میری خاطر بدل جائے
دل تو خیر سنتا نہیں کسی عقل کی بحث
کہاں کسی کے کہے سے انیس اب سنبھل جائے-
تو بھی ہے کسی خیال کا قیدی
میں بھی ہوں اک سوال کا قیدی
تو اپنے ماضی سے ہے بندھا ہوا
اور میں ہوں اپنے حال کا قیدی-