گردشِ روز و شب اِک جہانِ خارزار خالی دامن کو لیے۔۔۔ کبھی تھک کے زرا بیٹھ گئے پھر چلنے لگے۔۔۔۔ کِتنی صدیوں سے یہی تیز چلتی ہوئی گرم ہوا ریت پر لہو کی دھار بناتی ہوئی جاتی تھی۔۔۔
مگر آج ۔۔۔۔ مگر آج عدم سے اک نُور کی صُبح اُتری اپنے بے آباد سینے کی طرف دیکھتا ہوں دل سے تازہ گلابوں کی مہک آتی ہے۔
✔Ghazal/Urdu/غزل مقام ِعرش ِملال سے آگے نہ بڑھ سکا دل ہے کہ اِس کمال سے آگے نہ بڑھ سکا گُنبد ِدرُون ِجاں ميں شعلہ فشاں ہے کون یہ لہجہء شوق ، سوال سے آگے نہ بڑھ سکا ہے گنجلک بہت یقيں و گُماں کا کھيل طایرءجُنوں بھی اس جال سے آگے نہ بڑھ سکا موج ِشميم ِحُسن سے خالی ہے رہگُزر کوی بھی بس خیال سے آگے نہ بڑھ سکا پہلے ہی سوچ رکھتے ہيں ، ہم زمانے سے ہر خیال وہ پتّا ہی کیا ، جو ڈال سے؛ آگے نہ بڑھ سکا
"They never understand... How to see How to think How to feel And how to absorb Their happiness is not a happiness Their sadness is not a sadness They never understand How to be happy And how to be sad They never understand the meaning of the body and the soul... They never understand the meaning of the beauty and the beautiful... They never understand the meaning of the love And the beloved... They never understand... How to live... And how to die...".