اے محبت !
تیری قسمت کہ تجھے ہم مفت ملے
ہم سے دانا جو کمالات کیا کرتے تھے،
خشک مٹی کو امارات کیا کرتے تھے
اے محبت !
یہ تیرا بخت کہ بن مول ملے
ہم سے انمول جو ہیروں میں تُلا کرتے تھے
ہم سے منہ زور ، جو بھونچال اٹھارکھتے تھے
اے محبت میری !
ہم تیرے مجرم ٹھہرے ،
ہم جیسے جو لوگوں سے سوالات کیا کرتے تھے
ہم جو سو باتوں کی ایک بات کیا کرتے تھے
تیری تحویل میں آنے سے ذرا پہلے تک
ہم بھی اس شہر میں عزت سے رہا کرتے تھے
ہم بگڑتے تو کئی ، کام بنا کرتے تھے
اور !
اب تیری سخاوت کے گھنےسائے میں
خلقت شہر کو ہم زندہ تماشا ٹھہرے
جتنے الزام تھے ، مقصوم ہمارا ٹھہرے
اے محبت !
ذرا انداز بدل لے اپنا
تجھہ کو آئندہ بھی عشاق کا خون پینا ہے
ہم تو مر جائیں گے ، تجھ کو مگر جینا ہے
اے محبت !
تیری قسمت کہ تجھے ہم مفت ملے...!!!-
یہ بھی نہیں کہ آپکو میں جانتا نہیں
یہ بھی نہیں پرائے کا مطلب نہیں پتا
-
ہمیں تو عہدِ الفت کو قیامت تک نبھانا ہے
وہ رہتا ہے اگر ہم سے ، رہے بیزار ، بسم اللہ
-
ﻣﺮ ﮔﺌﯽ ﻣﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺷﻌﺮ ﻣﺰﺍﺟﯽ ﻣﯿﺮﯼ
ﺍﺏ ﺗُﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﻣﺼﺮﻉ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﺩُﮐﮫ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣِﺮﯼ ﺳﺎﻧﺲ ﭘﮧ ﻗﺎﺑﺾ ﮨﻮﺍ ﺷﺨﺺ
ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍلا
-
مرنا اس جہاں میں کوئی حادثہ نہیں
اس دورِ ناگوار میں جینا کمال ہے
-
وہ مجھ کو دستیاب بڑی دیر تک رہا
میں اُس کا انتخاب بڑی دیر تک رہا
دیکھا تھا اس نے مڑ کے مجھے اک نظر تو پھر
آنکھوں میں اضطراب بڑی دیر تک رہا
خوشبو مُقید ہو گئی لفظوں کے جال میں
کسی خط میں اک گلاب بڑی دیر تک رہا
چہرے پہ اُتر آئی تھی تعبیر کی تھَکن
پلکوں پہ ایک خواب بڑی دیر تک رہا
پہلے پہل تو عشق کے آداب یہ بھی تھے
میں " آپ " وہ " جناب " بڑی دیر تک رہا
اک بار اُس نے مجھ کو پکارا تھا اور بس
ہوا میں وہ رباب بڑی دیر تک رہا
صبح تلک اُس چھت پہ ستارے مقیم تھے
کھڑکی میں اک ماہتاب بڑی دیر تک رہا
اُس کے سوال پر سبھی الفاظ مر گئے
اشکوں میں پھر جواب بڑی دیر تک رہا
گن گن کے اُس نے جب مجھے احسان جتائے
پوروں پہ پھر حساب بڑی دیر تک رہا
اک عمر تک میں اس کو بڑا قیمتی لگا
وہ بھی مجھے نایاب بڑی دیر تک رہا-
وہ مجھ کو دستیاب بڑی دیر تک رہا
میں اُس کا انتخاب بڑی دیر تک رہا
دیکھا تھا اس نے مڑ کے مجھے اک نظر تو پھر
آنکھوں میں اضطراب بڑی دیر تک رہا
خوشبو مُقید ہو گئی لفظوں کے جال میں
کسی خط میں اک گلاب بڑی دیر تک رہا
چہرے پہ اُتر آئی تھی تعبیر کی تھَکن
پلکوں پہ ایک خواب بڑی دیر تک رہا
پہلے پہل تو عشق کے آداب یہ بھی تھے
میں " آپ " وہ " جناب " بڑی دیر تک رہا
اک بار اُس نے مجھ کو پکارا تھا اور بس
ہوا میں وہ رباب بڑی دیر تک رہا
صبح تلک اُس چھت پہ ستارے مقیم تھے
کھڑکی میں اک ماہتاب بڑی دیر تک رہا
اُس کے سوال پر سبھی الفاظ مر گئے
اشکوں میں پھر جواب بڑی دیر تک رہا
گن گن کے اُس نے جب مجھے احسان جتائے
پوروں پہ پھر حساب بڑی دیر تک رہا
اک عمر تک میں اس کو بڑا قیمتی لگا
وہ بھی مجھے نایاب بڑی دیر تک رہا-