یہ دل دھڑکنا بھول جائے گا تو تم پہ نام آئے گا
دل جلا کوئی زہر کھائے گا تو تم پہ نام آئے گا
یوں تو معمول پہ رہتی ہیں زندگی کی موجیں
کوئی دیوانہ جان سے جائے گا تو تم پہ نام آئے گا
کئی سماعتیں منتظر ہیں تیرے مسخور سُخن کی
پچھلے پہر کوئی گُنگُنائے گا تو تم پہ نام آئے گا
ابر آلود ہیں میرے شہر کے کئی راتوں سے
چاند بدلی سے باہر آئےگا تو تم پہ نام آئے گا
ہنستے مسکراتے عمر گزری ہے جاناں قسم سے
آنکھوں سے گر سیلاب آئےگا تو تم پہ نام آئے گا
عامر" کسی کی خواہش پہ بھلا کیوں لکھتے ہو؟
اشعار پہ کوئی دل ہار جائے گا تو تم پہ نام آئے گا-
'عامر' وہ پرانے مکیں ہیں میرے نئے مکاں کے
کیسے ممکن ہے کہ میں اُسے بھول جاؤں "عامر
مقدر میں نہیں تھا پر وہ پیار تو پہلا تھا-
یوں چھپ چھپ کے دیکھنے کی ضرورت کیا ہے
میں تو تیرے حال سے واقف رہتا ہوں ہمیشہ-
بقلم خود غوطہ زن ہوں سُخن کے سمندر میں
عامر" میں کسی اور کے اشعار پہ شیدا نہیں ہوتا-
میری بےلوث محبت کا بھرم کیا رکھتے "عامر"
وہ لوگ جو عقل کے ترازو میں مجھے تولتے رہے-
یہ اور بات ہے کہ مجھے تم بھول گئے ہو
لیکن میں اپنے حوالوں میں تمہیں یاد رکھتا ہوں-
ہائے ندامت لہو کے اشک رو رہا ہے دل
میں غم مناؤں یا خوشی بڑی الجھن ہے
اک طرف شور برپا ہے عید مبارک کا
اک طرف فلسطین کا لُٹا ہوا گلشن ہے-
پہلی ملاقات میں وہ آخری الفاظ قیمتی تھے
ہم فدا ہوئے تھے جن پہ وہ انداز قیمتی تھے
باتوں ہی باتوں میں رقیبوں کو ہر بات بتا ڈالی
اگر سمجھ تم سکو تو وہ راز قیمتی تھے
کھیل ہی کھیل میں اس دل سے کھیل گئے وہ
کیا بتاؤں میرے لیے کتنے وہ دغاباز قیمتی تھے
ٹال رکھی تھی جس نے ہر ایک ملاقات کل پہ
ہائے ظلم دیکھیئے وہ بہانےباز قیمتی تھے
وہ جو کسی سفر میں ہوئی تھیں چار آنکھیں
وہ مہرباں میرے لیے مہماں نواز قیمتی تھے
دل کے تاروں پہ راگ چھیڑ کر چھوڑ دیا اس نے
میرے کانوں میں گونجتے وہ ساز قیمتی تھے
شاید کہ مقدر میں جدائی ہی لکھی تھی "عامر
اشک بتا رہے تھے ترکِ تعلق کے جواز قیمتی تھے-
عجب لڑکی ہے جوشیلا مزاج رکھتی ہے
وہ اپنے طور طریقے اپنا رواج رکھتی ہے
ملکہ ہو جیسے کوئی سلطنتِ عشق کی
میرے مَن کے محل میں تخت و تاج رکھتی ہے
لفظِ کل اس کی کتاب میں ہی نہیں لکھا
اپنی ضد کا ہر عُنوان وہ آج رکھتی ہے
بیاں مجھ سے نہیں کرتی دُکھ درد بھی اپنے
انا کی سرحدوں پہ وہ اپنا راج رکھتی ہے
میرے زخموں کے لئے نہیں مرہم یہ اور بات ہے
ورنہ میرے ہر غم کا وہ علاج رکھتی ہے
میری غربت کے فسانے بند دریچوں میں رکھ کے
عامر" رقیبوں کی بزم میں میری لاج رکھتی ہے-
مدتوں یاد کریں گے لوگ میرے فسانے کو
ملے گا ہم سا نہیں جب دل کے بہلانے کو
میں پی لیتا ہوں اشک نظریں چرا کے
تم خوشی سمجھتے ہو میرے مسکرانے کو
اسے ان مناظر سے شاید تسکین ملتی تھی
لوگ پتھر مارتے تھے جب اس دیوانے کو
بازی پیار کی تھی جیت جاتے اور کسی سے
تمہیں ہم ہی ملے تھے کیا پیار میں ہرانے کو
وہ جس کے لیے میں تنہائیوں میں تڑپا
چراغاں سمجھے وہ میرے دل کے جلانے کو
مسکراہٹیں میرے نصیب میں نہیں تو کیا ہوا
لمحہ لمحہ وہ بھی ترسینگے اشک بہانے کو
کہا تھا نا کہ بات بہت دور تک جائے گی "عامر
تمہیں کس نے کہا تھا پانی میں آگ لگانے کو؟-