تم گراکر مجھے سنبھل نہ سکے
اور گر کر سنبھل گئی ہوں میں-
نظمیں خانہ بدوش عورتیں ہیں
افسانہ! ہوا اوس کراں رٲچھ دعا ہیو
بٕے زانہ مسیحا تہ سمُکھ دٲدی لدا ہیو-
ژٕ کیا پرژھاں ہوا نوا ، زیوٕے ژٔٹٕکھ زبٲنی تاں
ہوا ونی ژے حبسِ دم نوا ونی وُجارٕگی
-
ترے ساتھ جو مرا رنگ تھا
وہی رنگ یے ترے بعد بھی
کوئی سِل جو سینے میں تھی جواں
وہی سنگ یے ترے بعد بھی
نہ امنگ تھی نہ ترنگ تھی
نہ ہی خواہشوں کی پتنگ تھی
مجھے اپنے آپ سے جنگ تھی
سو وہ جنگ ہے ترے بعد بھی-
سماج ایک بھوکا بھیڑیا ہے
ہم مڈل کلاس لوگ اس کے سامنے اپنے بچے پھینک دیتے ہیں-
بی پازِٹِیو
میں تم سے بڑی ہوں بہن
تم سے دو تین صدیاں بڑی ہوں
آٹھ یا دس قدم تم سے آگے
تم سے زیادہ غلامی ہے میری نسوں میں
بی پازیٹیو ہوں
مجھے سخت لہجوں کی
اور کڑوے لفظوں کی عادت ہے
بی پازیٹیو ہوں
مجھے معاف کرنے کی
ہنس ہنس کے مرنے کی لت ہے
میں بی پازٹیو ہوں
تمہیں مجھ پہ جانے کی ضد ہے؟
جہنم بسانے کی ضد ہے
سہیلی! بہن !
میرے قدموں کے ضدی نشاں بھول جاؤ
اپنی آنکھوں کو رونا سکھاؤ
اپنی مٹی کو ہونا سکھاؤ-
*درندے*
ہم دن کو درندوں کا شکار کرتے تھے
درندے رات کو ہمارا
ایک دن ہم نے آگ دریافت کی
درندے بھاگ گئے
پھر اس آگ کی روشنی میں بیٹھ کر ہم نے نیوکلیئر بم بنانے والوں کے لئے نوبل پرائز تخلیق کیا
درندے ہار گئے
-