لوگ کیا کہیں گے
کھلے آسماں پر اڑان بھرتے
آج پھر اس سوچ میں ڈوبی ہوں
جب نکال پھینکے تھے سب خدشے
پھر ان ہواؤں کے آگے میں کیوں ٹوٹی ہوں
رنگ و نسل سے تو زمین کی ہوں
خودشناسی پر آج خود سے پھر کیوں الجھی ہوں
یقین ہوں, امید ہوں, حیا ہوں
پھر بھی سراپا سوال ہوں کہ کردار کی کیسی ہوں؟
بدنام ہوں, بد کردار ہوں بہت بے کار ہوں
سچ کہوں اگر, تب بھی جھوٹی ہوں
زمانے کے خیال میں کام تو بہانہ ہے
بس مجھے باہر جانا ہے
ضرورت کیا پڑی ہے؟
ارے! اس عورت کو تو مستی چڑی ہے
ہر روز اک نیا الزام ہے
ہر روز اک نیا امتحان ہے
نت نئے القابات سے نوازی جاتی ہوں
بِکوں نہ بھی تو بھی خریدی جاتی ہوں
خاموش بیٹھوں تو بھی سنائی جاتی ہوں
پسِ پردہ رہوں تو بھی دکھائی جاتی ہوں
اقراء خان
-